غم محبت ستا رہا ہے غم زمانہ مسل رہا ہے
مگر مرے دن گزر رہے ہیں مگر مرا وقت ٹل رہا ہے
وہ ابر آیا وہ رنگ برسے وہ کیف جاگا وہ جام کھنکے
چمن میں یہ کون آ گیا ہے تمام موسم بدل رہا ہے
مری جوانی کے گرم لمحوں پہ ڈال دے گیسوؤں کا سایہ
یہ دوپہر کچھ تو معتدل ہو تمام ماحول جل رہا ہے
یہ بھینی بھینی سی مست خوشبو یہ ہلکی ہلکی سی دل نشیں بو
یہیں کہیں تیری زلف کے پاس کوئی پروانہ جل رہا ہے
نہ دیکھ او مہ جبیں مری سمت اتنی مستی بھری نظر سے
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے شراب کا دور چل رہا ہے
عدمؔ خرابات کی سحر ہے کہ بارگاہ رموز ہستی
ادھر بھی سورج نکل رہا ہے ادھر بھی سورج نکل رہا ہے
غزل
غم محبت ستا رہا ہے غم زمانہ مسل رہا ہے
عبد الحمید عدم