غم خاشاک کیا شعلے کو ہوگا
وہ رقصاں خود ہی اک لمحے کو ہوگا
چٹانوں کی شکست آساں نہیں ہے
بالآخر ٹوٹنا شیشے کو ہوگا
خیال دشمناں ہوگا تو وہ بھی
کسی مجھ سے ہی دل والے کو ہوگا
یہ گھر تو گھر جبھی کہلائیں گے جب
غم ہم سایہ ہمسائے کو ہوگا
میں جب گزروں گا اس جہد سفر سے
مرا پچھلا قدم اٹھنے کو ہوگا
وہ شور اٹھنے لگا باہر کہ اب تو
بچانا گھر کے سناٹے کو ہوگا
زمانے کو بھی ہم نے کب کیا خوش
زمانہ ہم سے خوش کاہے کو ہوگا

غزل
غم خاشاک کیا شعلے کو ہوگا
محشر بدایونی