غم حیات کی پہنائیوں سے خوف زدہ
میں عمر بھر رہا ناکامیوں سے خوف زدہ
جہاں بھی دیکھو تعصب کی چل رہی ہے ہوا
ہمارا شہر ہے بلوائیوں سے خوف زدہ
کبھی کسی کا برا ہی نہیں کیا پھر بھی
زمانہ ہے مری خوش حالیوں سے خوف زدہ
کرم تمہارا کوئی بے غرض نہیں ہوتا
ہے دل تمہاری مہربانیوں سے خوف زدہ
الٰہی تجھ کو خبر ہے کہ یہ ترا ساحرؔ
ہے کتنا اپنی پریشانیوں سے خوف زدہ
غزل
غم حیات کی پہنائیوں سے خوف زدہ
ساحر شیوی