غم حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا
یہ دور وہ ہے جو شعر و ادب نہیں پڑھتا
کوئی تو بات ہے روداد خون ناحق میں
کہیں کہیں سے وہ پڑھتا ہے سب نہیں پڑھتا
کسی کا چہرۂ تاباں کہ ماہ رخشندہ
جو پڑھنے والا ہے قرآں وہ کب نہیں پڑھتا
وہ کون ہے جو تجھے رات دن نہیں لکھتا
وہ کون ہے جو تجھے روز و شب نہیں پڑھتا
وہ اب تو اس قدر اظہار حق سے ڈرتا ہے
اگر لکھا ہو کہیں لب تو لب نہیں پڑھتا
نہ جانے ان دنوں کیا ہو گیا ہے ساقی کو
نگاہ رند میں حسن طلب نہیں پڑھتا
اسی کا رنگ ہے افسرؔ اسی کی خوشبو ہے
مرا کلام کوئی بے سبب نہیں پڑھتا
غزل
غم حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا
افسر ماہ پوری