غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وہ آج لپٹے ہیں کس نازکی سے لاشے سے
کہ جیسے روٹھے ہوؤں کو منا رہا ہے کوئی
کہیں پلٹ کے نہ آ جائے سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
غزل
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
سردار انجم