EN हिंदी
غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں | شیح شیری
gham-e-furqat hi mein marna ho to dushwar nahin

غزل

غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں

الطاف حسین حالی

;

غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں
شادی وصل بھی عاشق کو سزاوار نہیں

خوبروئی کے لیے زشتی خو بھی ہے ضرور
سچ تو یہ ہے کہ کوئی تجھ سا طرح دار نہیں

قول دینے میں تامل نہ قسم سے انکار
ہم کو سچا نظر آتا کوئی اقرار نہیں

کل خرابات میں اک گوشہ سے آتی تھی صدا
دل میں سب کچھ ہے مگر رخصت گفتار نہیں

حق ہوا کس سے ادا اس کی وفاداری کا
جس کے نزدیک جفا باعث آزار نہیں

دیکھتے ہیں کہ پہنچتی ہے وہاں کون سی راہ
کعبہ و دیر سے کچھ ہم کو سروکار نہیں

ہوں گے قائل وہ ابھی مطلع ثانی سن کر
جو تجلی میں یہ کہتے ہیں کہ تکرار نہیں