غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں
شادی وصل بھی عاشق کو سزاوار نہیں
خوبروئی کے لیے زشتی خو بھی ہے ضرور
سچ تو یہ ہے کہ کوئی تجھ سا طرح دار نہیں
قول دینے میں تامل نہ قسم سے انکار
ہم کو سچا نظر آتا کوئی اقرار نہیں
کل خرابات میں اک گوشہ سے آتی تھی صدا
دل میں سب کچھ ہے مگر رخصت گفتار نہیں
حق ہوا کس سے ادا اس کی وفاداری کا
جس کے نزدیک جفا باعث آزار نہیں
دیکھتے ہیں کہ پہنچتی ہے وہاں کون سی راہ
کعبہ و دیر سے کچھ ہم کو سروکار نہیں
ہوں گے قائل وہ ابھی مطلع ثانی سن کر
جو تجلی میں یہ کہتے ہیں کہ تکرار نہیں
غزل
غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں
الطاف حسین حالی