EN हिंदी
غم آفاق میں عارف اگر کروٹ بدلتا ہے | شیح شیری
gham-e-afaq mein aarif agar karwaT badalta hai

غزل

غم آفاق میں عارف اگر کروٹ بدلتا ہے

بیباک بھوجپوری

;

غم آفاق میں عارف اگر کروٹ بدلتا ہے
سیاہی سے قلم کی نور کا مینار ڈھلتا ہے

بصیرت ہو تو ہر ذرہ تجلی زار سینا ہے
نگہ تاریک ہو تو آئنہ ظلمت اگلتا ہے

حضور حسن ہوتی ہے کسے دیکھیں پذیرائی
سدا عبرت اثر دستور‌ حق دن رات چلتا ہے

خدا آگاہ کا ہر ہر نفس درس تیقن ہے
حیا بیگانہ تخریبی ہمیشہ چال چلتا ہے

مصاف رزم سے ہرگز نہ جا آئینہ خانوں میں
خدا کا شیر دل آفات کے قالب میں ڈھلتا ہے

نگارش مقصد تخلیق برگ گل پہ ہے لیکن
کسے ہے تاب نظارہ چراغ طور جلتا ہے

خلوص دل سے بنتا ہے حصار نار بھی جنت
بہ فضل حق زمین شور سے زمزم ابلتا ہے

مذاق سرفروشی خانقاہوں سے ہوا رخصت
مگر تلوار کی محراب میں سر باز پلتا ہے

زمانہ مست عشرت ہے تکلف کے جہنم میں
حرم کا پاسباں بت خانۂ آزر میں پلتا ہے

لٹا دیتے ہیں الماس و گہر صاحب نظر ہنس کر
ستارے ڈوبتے ہیں تو کوئی سورج نکلتا ہے

بڑا دانا ہے دیوانہ کہیں ٹھوکر نہیں کھاتا
اندھیری رات ہے لیکن دیا تو دل کا جلتا ہے

صداقت سے لہک جاتے ہیں تن سازوں کے بت خانے
غزل کی آگ سے فولاد کا پیکر پگھلتا ہے

تصرف میں شبستان جہاں ہے عشق و مستی کے
زمانہ سو چکا ہے فقر کا جادو تو چلتا ہے

بہت دشوار ہے چلنا صراط دین فطرت پر
خدا کی جستجو میں ہر نفس شعلہ اگلتا ہے

تمہاری عظمت دستار تو تسلیم ہے ناصح
کلیجہ راہ حق میں شیر مردوں کا دہلتا ہے

یہ خطرہ ہے نہ لے ڈوبے پرستش تن کی مرشد کو
چراغ اسلام کا ایثار و قربانی سے جلتا ہے

دل نازک پہ حرف آئے نہ ان ببیاکؔ مستوں کے
مقدر جن کی ٹھوکر سے زمانے کا بدلتا ہے