غم دنیا بہت ایذا رساں ہے
کہاں ہے اے غم جاناں کہاں ہے
اک آنسو کہہ گیا سب حال دل کا
نہ سمجھا تھا یہ ظالم بے زباں ہے
خدا محفوظ رکھتے آفتوں سے
کئی دن سے طبیعت شادماں ہے
وہ کانٹا ہے جو چبھ کر ٹوٹ جائے
محبت کی بس اتنی داستاں ہے
یہ مانا زندگی کامل ہے لیکن
اگر آ جائے جینا جاوداں ہے
سلام آخر ہے اہل انجمن کو
خمار اب ختم اپنی داستاں ہے
غزل
غم دنیا بہت ایذا رساں ہے
خمارؔ بارہ بنکوی