EN हिंदी
غم دیے ہیں تو مسرت کے گہر بھی دینا | شیح شیری
gham diye hain to masarrat ke guhar bhi dena

غزل

غم دیے ہیں تو مسرت کے گہر بھی دینا

شمس رمزی

;

غم دیے ہیں تو مسرت کے گہر بھی دینا
اے خدا تو مجھے جینے کا ہنر بھی دینا

حاکم وقت یہ ہجرت مجھے منظور مگر
دم رخصت مجھے سامان سفر بھی دینا

اے شب و روز کے مالک مجھے اس دنیا میں
لیلۃ القدر کی مانند سحر بھی دینا

سن ذرا غور سے سن اے شجر سایہ فگن
جب ترے سائے میں پہنچوں تو ثمر بھی دینا

لفظ نکلیں جو زباں سے تو دلوں تک پہنچیں
میری تقریر میں کچھ ایسا اثر بھی دینا

تیرے الطاف و کرم کی ہے بہر سو شہرت
مال و زر دے گا ہی تو لعل و گہر بھی دینا

تو جو شمشیر بکف ہو تو میں سر پیش کروں
جو ہیں دل والے انہیں آتا ہے سر بھی دینا

بخشنے والے زمانے کو جمال ہر رنگ
جو تجھے دیکھ سکے ایسی نظر بھی دینا

لے چلا میں تری جنت سے بیاباں کی طرف
سر چھپانے کو وہاں تو مجھے گھر بھی دینا

حرف آ جائے نہ تجھ پر کہیں کم ظرفی کا
دامن شمسؔ کو تو دیدۂ تر بھی دینا