غم دیتے ہیں تو اضطراب نہ دے
زندگی دے مگر عذاب نہ دے
مسکرانے کے ہیں کئی مفہوم
مسکرا کر کوئی جواب نہ دے
اس کی تعبیر کس سے پوچھوں گا
میری آنکھوں کو کوئی خواب نہ دے
خود شناسی مٹائے دیتا ہے
عیش اتنا بھی بے حساب نہ دے
مجھ کو جو چاہے دے سزا لیکن
مصلحت کی کوئی نقاب نہ دے
تیری ضد ہے یہی اگر ساقی
زہر دے دے مگر شراب نہ دے

غزل
غم دیتے ہیں تو اضطراب نہ دے
گوہر عثمانی