غم بھی صدیوں سے ہیں اور دیدۂ تر صدیوں سے
خانہ بربادوں کے آباد ہیں گھر صدیوں سے
در بدر ان کا بھٹکنا تو نئی بات نہیں
چاہنے والے تو ہیں خاک بسر صدیوں سے
کوئی مشکل نہ مسافت ہے نہ رستے کی تھکن
اصل زنجیر ہے سامان سفر صدیوں سے
تجھ سے ملنے کے سوا ساری دعائیں گلشن
اک یہی شاخ ہے بے برگ و ثمر صدیوں سے
کیا مسافر ہیں یہ رستے میں بھٹکنے والے
جیسے بے سمت گھٹاؤں کا سفر صدیوں سے
کس نے دیکھی ہے زمانے میں وفا کی خوشبو
یہ کہانی ہے کتابوں میں مگر صدیوں سے
ہر زمانے میں خوشامد نے صدارت کی ہے
کامراں ہوتا رہا ہے یہ ہنر صدیوں سے
ماسوا حسن کہیں عشق نے دیکھا نہ فہیمؔ
ایک ہی سمت کو جامد ہے نظر صدیوں سے
غزل
غم بھی صدیوں سے ہیں اور دیدۂ تر صدیوں سے
فہیم جوگاپوری