گلی کا عام سا چہرہ بھی پیارا ہونے لگتا ہے
محبت میں تو ذرہ بھی ستارا ہونے لگتا ہے
یہاں گم سم سے لوگوں پر کبھی پلکیں نہیں اٹھیں
اشارا کرنے والوں کو اشارا ہونے لگتا ہے
ہماری زندگی پر ہے ہمارے عشق کا سایہ
کہ ہم جو کام کرتے ہیں خسارا ہونے لگتا ہے
محبت کی عدالت بھی بھلا کیسی عدالت ہے
کہ جب بھی اٹھنے لگتے ہیں پکارا ہونے لگتا ہے
زمین و آسماں کے سارے صحرا رقص کرتے ہیں
کسی پر عشق جب بھی آشکارا ہونے لگتا ہے
عطاؔ بے صبر لوگوں کے کبھی برتن نہیں بھرتے
گزارہ کرنے والوں کا گزارا ہونے لگتا ہے
غزل
گلی کا عام سا چہرہ بھی پیارا ہونے لگتا ہے
احمد عطاء اللہ