گلی گلی مری وحشت لیے پھرے ہے مجھے
کہ سنگ و خشت کی لذت لیے پھرے ہے مجھے
نہ کوئی منزل مقصود ہے نہ راہ طلب
بھٹکتے رہنے کی عادت لیے پھرے ہے مجھے
نہ مال و زر کی تمنا نہ زندگی کی ہوس
نہ جانے کون سی قوت لیے پھرے ہے مجھے
حرم سے دیر تلک دیر سے حرم کی طرف
نہ جانے کس کی عقیدت لیے پھرے ہے مجھے
یہ مفسدوں کا جہاں یہ تضاد کی دنیا
بس ایک حرف محبت لیے پھرے ہے مجھے
مجھے کیا مری فکر رسا نے آوارہ
کہ در بدر مری شہرت لیے پھرے ہے مجھے
جو بس چلے نہ اٹھوں تیرے آستانے سے
یہ سر پھرا جو ہے رفعتؔ لیے پھرے ہے مجھے

غزل
گلی گلی مری وحشت لیے پھرے ہے مجھے
رفعت سروش