EN हिंदी
گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ | شیح شیری
gale se dil ke rahi yun hai zulf-e-yar lipaT

غزل

گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ

نظیر اکبرآبادی

;

گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ
کہ جوں سپیرے کی گردن میں جائے مار لپٹ

مزے اٹھاتے کمر بند کی طرح سے اگر
کمر سے یار کی جاتے ہم ایک بار لپٹ

ہمارے پاس وہ آیا تو کھول کر آغوش
یہ چاہا جاویں ہم اس سے بہ انکسار لپٹ

وہیں وہ دور سرک کر عتاب سے بولا
ہمارے ساتھ نہ ہو کر تو بے قرار لپٹ

ہمیں جو چاہیں تو لپٹیں نظیرؔ اب ورنہ
تو چاہے لپٹے سو ممکن نہیں ہزار لپٹ