غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک
کچھ بھی ہوا وہ واقف افلاک تو ہوا
کچھ اور وہ ہوا نہ ہوا مجھ کو دیکھ کر
یاد بہار حسن سے غم ناک تو ہوا
اس کشمکش میں ہم بھی تھکے تو ہیں اے منیرؔ
شہر خدا ستم سے مگر پاک تو ہوا
غزل
غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
منیر نیازی