غیر ممکن تھا یہ اک کام مگر ہم نے کیا
تیرے نظارے کو پابند نظر ہم نے کیا
آگے چل کر یہ خدا جانے کہاں رہ جائیں
غیر بھی چل پڑے جب عزم سفر ہم نے کیا
ان خیالات ہی پر ٹوٹ پڑی ہے دنیا
جن خیالات کو کل ذہن بدر ہم نے کیا
دن خطرناک جزیرہ سا نظر آنے لگا
اپنی ہی ذات کا کل شب جو سفر ہم نے کیا
یوں تڑپ اٹھا کہ آئی ہو قیامت جیسے
اس کی دہلیز پہ خم آج جو سر ہم نے کیا
تو ہے ہم راہ تو کانٹے بھی مزہ دینے لگے
یوں تو کہنے کو کئی بار سفر ہم نے کیا
کر گئے بھول کے جو سرمدؔ و منصورؔ و وقارؔ
وہ تماشہ نہ سر راہ گزر ہم نے کیا
غزل
غیر ممکن تھا یہ اک کام مگر ہم نے کیا
وقار واثقی