غیر کے آگے یہ سر خم دیکھیے کب تک رہے
بے حسی کا اب یہ عالم دیکھیے کب تک رہے
دوست اور دشمن کے چہرے تا بہ کے واضح نہ ہوں
دیپ کی لو اتنی مدھم دیکھیے کب تک رہے
کب دعائیں مستجب ہوں کب ہمارے دن پھریں
دل پریشاں آنکھ پر نم دیکھیے کب تک رہے
روشنی کے جشن میں حائل نہ تھے شب کے رفیق
چاند تارے اور شبنم دیکھیے کب تک رہے
جو محرک ہے مرے تخلیق فن کے واسطے
فکر میں یہ شدت غم دیکھیے کب تک رہے
کیسے کیسے سر کشیدہ جھک گئے اک وار سے
ہاں مگر سینہ سپر ہم دیکھیے کب تک رہے
برف بھی پگھلے گی اور سورج بھی چمکے گا ضرور
سرد مہری کا یہ موسم دیکھیے کب تک رہے

غزل
غیر کے آگے یہ سر خم دیکھیے کب تک رہے
مرتضیٰ برلاس