گئی نہیں ترے ظلم و ستم کی خو اب تک
ٹپک رہا ہے مری آنکھ سے لہو اب تک
نہ جانے کب سے ہے میرے لبوں پہ تیرا نام
اسی سبب سے تو ٹوٹا نہیں وضو اب تک
تمام عمر گلستاں میں کٹ گئی لیکن
ہوا نہیں مجھے اور ایک رنگ و بو اب تک
کسی بھی شعر کو حاصل ہوئی نہ زرخیزی
میں ڈھونڈھتا رہا صحراؤں میں نمو اب تک
کھلی سرائے کے جیسا ہے یہ بدن اپنا
اور اس سرائے میں چلتی رہی ہے لو اب تک
تصورات کے خیموں کو روشنی مل جائے
اسی خیال کی ہے دل میں آرزو اب تک
کئے تھے شوقؔ جو میرے جوان بیٹے نے
وہ دل کے چاک ہوئے ہی نہیں رفو اب تک
غزل
گئی نہیں ترے ظلم و ستم کی خو اب تک
سنجے مصرا شوق