گہری سونی راہ اور تنہا سا میں
رات اپنی چاپ سے ڈرتا سا میں
تو کہ میرا آئنہ ہوتا ہوا
اور تیرے عکس میں ڈھلتا سا میں
کب ترے کوچے سے کر جانا ہے کوچ
اس تصور سے ہی گھبراتا سا میں
میری راہوں کے لیے منزل تو ہی
تیرے قدموں کے لیے رستا سا میں
آسماں میں رنگ بکھراتا سا تو
اور سراپا دید بن جاتا سا میں
حسرت تعبیر سے چھوٹوں کبھی
ہر نفس اس خواب میں جلتا سا میں
بے کراں ہوتا ہوا دشت گماں
اور یقیں کے دار پر آیا سا میں
نا کوئی منظر نہ اب کوئی خیال
اب ہر اک شے بھولتا جاتا سا میں
غزل
گہری سونی راہ اور تنہا سا میں
اکرم نقاش