گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے
تیری ہی زلفوں کا دفتر لکھنا ہے
کئی دنوں سے بات نہیں کی اپنوں سے
آج ضروری خط اپنے گھر لکھنا ہے
شدت پر ہے ہرے بھرے پتوں کی پیاس
صحرا صحرا خون سمندر لکھنا ہے
پتھر پر ہم نام کسی کا لکھیں گے
آئینے پر آذر آذر لکھنا ہے
چہرہ روشن کھلے ہوئے صحرا کی دھوپ
گہری آنکھیں گہرا ساگر لکھنا ہے
اس سے آگے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں
اس کے آگے تجھ کو بڑھ کر لکھنا ہے
غزل
گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے
فاروق نازکی