گہری ہے شب کی آنچ کہ زنجیر در کٹے
تاریکیاں بڑھے تو سحر کا سفر کٹے
کتنی شدید ہے یہ خنک سرخیوں کی شام
سلگا ہے وہ سکوت کہ تار نظر کٹے
سوگند ہے کہ ترک طلب کی سزا ملے
رک جائے گر قدم کی مسافت تو سر کٹے
کیوں کشت اعتبار بھی سرسر کی زد میں ہو
کیا انتظار خلق سے فصل ہنر کٹے
یوں بھی تو ہو کہ سر کے سبب ہو شکست سنگ
یہ بھی تو ہو کبھی کہ شجر سے تبر کٹے
کھل جائیں روشنی پہ مرے پتھروں کے رنگ
اس رات سی پہاڑ کا سینہ مگر کٹے
صدیوں سفر ہے شادؔ مجھے خود مرا وجود
دل سے غبار راہ چھٹے رہ گزر کٹے
غزل
گہری ہے شب کی آنچ کہ زنجیر در کٹے
عطا شاد