EN हिंदी
گہرے سمندروں میں بالآخر اتر گئے | شیح شیری
gahre samundaron mein bil-aKHir utar gae

غزل

گہرے سمندروں میں بالآخر اتر گئے

ندیم صدیقی

;

گہرے سمندروں میں بالآخر اتر گئے
خوش فہمیوں کا زہر پیا اور مر گئے

ہم عہد نو کے لوگ بھی اللہ کی پناہ
کاسہ اٹھائے ہاتھ میں اپنے ہی گھر گئے

کچھ لوگ اڑ رہے تھے ہواؤں کے دوش پر
کیا جانے کس خیال سے ہم بھی ادھر گئے

کل رات پی پلا کے بڑی مستیاں ہوئیں
آخر کو تھک تھکا کے پھر اپنے ہی گھر گئے

کیا کیا نہ بن رہے تھے میاں حضرت ندیمؔ
سورج کو چھونے نکلے تھے سائے سے ڈر گئے