غفلت میں سویا اب تلک پھر ہووے گا ہشیار کب
یاری لگایا خلق سوں پاوے گا اپنا یار کب
جھوٹی محبت باندھ کر غافل رہا اپنے سوں حیف
بلبل ہوں سنپڑا دام میں دیکھے گا پھر گل زار کب
یہ خواب و خور فرزند و زن اور مال و زر زنداں ہوا
تو چھوٹ کر اس قید سوں حاصل کرے دیدار کب
حرص و ہوا بغض و حسد کبر و منی بخل و جہل
اس رہ زنان سوں باچ کر ہووے گا بر خوردار کب
اس نفس کافر کیش کی خصلت تجھے معلوم نہیں
گر قتل کیتا نہیں اسے تجھ کو ملے دل دار کب
بن پیر پہونچا نہیں کبھی کوئی ساحل مقصود کو
ملاح بن کشتی کہیں ہوتی ہے دریا پار کب
برحق علیمؔ اللہ کہا رب قول یہدی من یشاء
جنت کے طالب کو کہو آوے نظر دیدار کب

غزل
غفلت میں سویا اب تلک پھر ہووے گا ہشیار کب
علیم اللہ