گئے تھے وہاں جی میں کیا ٹھان کر کے
چلے آئے ایران توران کر کے
اگر دل کا بالفرض گل نام پڑ جائے
تو پھر ہے یہ سینہ گلستان کر کے
دیا ہم نے دل ان پری چہرگاں کو
زروئے قیاس آدمی جان کر کے
یہ دنیا ہمیں خوش نہ آئے گی پھر بھی
رہیں خواہ خود کو سلیمان کر کے
ترے غم میں جس سے مژہ تر کروں ہوں
وہ اک قطرہ ہے قلزمستان کر کے
دکھا ہی دیا آخرش اہل دل نے
اسی دانے سے کھیت کھلیان کر کے
یہ کیا چیز تعمیر کرنے چلے ہو
بنائے محبت کو ویران کر کے
میاں ہم تو جاویدؔ کو لے گئے تھے
دیا ہی نہیں اس نے پہچان کر کے
غزل
گئے تھے وہاں جی میں کیا ٹھان کر کے
احمد جاوید