EN हिंदी
گئے تھے وہاں جی میں کیا ٹھان کر کے | شیح شیری
gae the wahan ji mein kya Than kar ke

غزل

گئے تھے وہاں جی میں کیا ٹھان کر کے

احمد جاوید

;

گئے تھے وہاں جی میں کیا ٹھان کر کے
چلے آئے ایران توران کر کے

اگر دل کا بالفرض گل نام پڑ جائے
تو پھر ہے یہ سینہ گلستان کر کے

دیا ہم نے دل ان پری چہرگاں کو
زروئے قیاس آدمی جان کر کے

یہ دنیا ہمیں خوش نہ آئے گی پھر بھی
رہیں خواہ خود کو سلیمان کر کے

ترے غم میں جس سے مژہ تر کروں ہوں
وہ اک قطرہ ہے قلزمستان کر کے

دکھا ہی دیا آخرش اہل دل نے
اسی دانے سے کھیت کھلیان کر کے

یہ کیا چیز تعمیر کرنے چلے ہو
بنائے محبت کو ویران کر کے

میاں ہم تو جاویدؔ کو لے گئے تھے
دیا ہی نہیں اس نے پہچان کر کے