گئے تھے شوق سے ہم بھی یہ دنیا دیکھنے کو
ملا ہم کو ہمارا ہی تماشا دیکھنے کو
کھڑے ہیں راہ چلتے لوگ کتنی خامشی سے
سڑک پر مرنے والوں کا تماشا دیکھنے کو
بہت سے آئینہ خانے ہیں اسی بستی میں لیکن
ترستی ہے ہماری آنکھ چہرہ دیکھنے کو
کمانوں میں کھنچے ہیں تیر تلواریں ہیں چمکی
ذرا ٹھہرو کہاں جاتے ہو دریا دیکھنے کو
خدا نے مجھ کو بن مانگے یہ نعمت دی ہے منظرؔ
ترستے ہیں بہت سے لوگ ممتا دیکھنے کو
غزل
گئے تھے شوق سے ہم بھی یہ دنیا دیکھنے کو
منظر بھوپالی