EN हिंदी
گدائے شہر آئندہ تہی کاسہ ملے گا | شیح شیری
gada-e-shahr-e-ainda tahi-kasa milega

غزل

گدائے شہر آئندہ تہی کاسہ ملے گا

ثروت حسین

;

گدائے شہر آئندہ تہی کاسہ ملے گا
تجاوز اور تنہائی کی حد پر کیا ملے گا

سیاہی پھیرتی جاتی ہیں راتیں بحر و بر پہ
انہی تاریکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے گا

میں اپنی پیاس کے ہم راہ مشکیزہ اٹھائے
کہ ان سیراب لوگوں میں کوئی پیاسا ملے گا

روایت ہے کہ آبائی مکانوں پر ستارہ
بہت روشن مگر نمناک و افسردہ ملے گا

شجر ہیں اور اس مٹی سے پیوستہ رہیں گے
جو ہم میں سے نہیں آسائشوں سے جا ملے گا

ردائے ریشمی اوڑھے ہوئے گزرے گی مشعل
نشست سنگ پہ ہر صبح گلدستہ ملے گا

وہ آئینہ جسے عجلت میں چھوڑ آئے تھے ساتھی
نہ جانے باد و خاک آثار میں کیسا ملے گا

اسے بھی یاد رکھنا بادبانی ساعتوں میں
وہ سیارہ کنار صبح فردا آ ملے گا

چرا گاہوں میں رک کر آسمانی گھنٹیوں کو
سنو کچھ دیر کہ وہ زمزمہ پیرا ملے گا

اسی کی وادیوں میں طائران رزق جو کو
نشیمن اور اجلی نیند کا دریا ملے گا

اسی جائے نماز و راز پہ اک روز ثروتؔ
اچانک در کھلے گا اور وہ جھونکا ملے گا