گاتا رہا ہے دور کوئی ہیر رات بھر
میں دیکھتا رہا تری تصویر رات بھر
تاروں کے ٹوٹنے کی صدا گونجتی رہی
ہوتی رہی ہے رات کی تشہیر رات بھر
سورج نے صبح دم مرے پاؤں میں ڈال دی
میں توڑتا رہا ہوں جو زنجیر رات بھر
میں خامشی میں ڈوب کے کچھ سوچتا رہا
کچھ بولتی رہی تری تصویر رات بھر
میں چل پڑا تو کٹ کے وہ قدموں میں آ گری
لٹکی ہے میرے سر پہ جو شمشیر رات بھر
میں سو گیا رشیدؔ تو ہالہ بکھر گیا
سوجھی نہ کوئی چاند کو تدبیر رات بھر

غزل
گاتا رہا ہے دور کوئی ہیر رات بھر
رشید قیصرانی