غار کے منہ سے یہ چٹان ہٹانے کے لیے
کوئی نیکی بھی نہیں یاد دلانے کے لیے
اک نگاہ غلط انداز کا امکاں نکلا
کچھ زمیں اور ملی پاؤں بڑھانے کے لیے
اس کی راہوں میں پڑا میں بھی ہوں کب سے لیکن
بھول جاتا ہوں اسے یاد دلانے کے لیے
صبح درویشوں نے پھر راہ لی اپنی اپنی
میں بھی بیٹھا تھا وہاں قصہ سنانے کے لیے
وہ مرے ساتھ تو کچھ دور چلا تھا لیکن
کھو گیا خود بھی مجھے راہ پہ لانے کے لیے
ایک شب ہی تو بسر کرنا ہے اس دشت میں زیبؔ
کچھ بھی مل جائے یہاں سر کو چھپانے کے لیے
غزل
غار کے منہ سے یہ چٹان ہٹانے کے لیے
زیب غوری