گاؤں رفتہ رفتہ بنتے جاتے ہیں اب شہر
قریہ قریہ پھیل رہا ہے تنہائی کا زہر
مجھ کو ڈستا رہتا ہے بس ہر دم یہی خیال
ایک ہی رخ پر کیوں بہتا ہے دریا آٹھوں پہر
کون سا بھولا بسرا غم تھا جو آیا ہے یاد
رہ رہ کر پھر دل میں اٹھے درد کی میٹھی لہر
میرا جیتے رہنا بھی تو بن گیا ایک عذاب
لیکن میرا مرنا بھی تو ہو جائے گا قہر
لگتا ہے کچھ انہونی سی ہونے والی ہے
درہم برہم ہونے کو ہے جیسے نظام دہر

غزل
گاؤں رفتہ رفتہ بنتے جاتے ہیں اب شہر
شفیق سلیمی