گاؤں میں اب گاؤں جیسی بات بھی باقی نہیں
یعنی گزرے وقت کی سوغات بھی باقی نہیں
تتلیوں سے ہلکے پھلکے دن نہ جانے کیا ہوئے
جگنوؤں سی ٹمٹماتی رات بھی باقی نہیں
مسکراہٹ جیب میں رکھی تھی کیسے کھو گئی
حیف اب اشکوں کی وہ برسات بھی باقی نہیں
بت پرستی شیوہ دل ہو تو کوئی کیا کرے
اب تو کعبہ میں حبل اور لات بھی باقی نہیں
چھت پہ جانا چاند کو تکنا کسی کی یاد میں
وقت کے دامن میں وہ اوقات بھی باقی نہیں
غزل
گاؤں میں اب گاؤں جیسی بات بھی باقی نہیں
راغب اختر