گاؤں گاؤں خاموشی سرد سب الاؤ ہیں
رہرو رہ ہستی کتنے اب پڑاؤ ہیں
رات کی عدالت میں جانے فیصلہ کیا ہو
پھول پھول چہروں پہ ناخنوں کے گھاؤ ہیں
اپنے لاڈلوں سے بھی جھوٹ بولتے رہنا
زندگی کی راہوں میں ہر قدم پہ داؤ ہیں
روشنی کے سوداگر ہر گلی میں آ پہنچے
زندگی کی کرنوں کے آسماں پہ بھاؤ ہیں
چاہتوں کے سب پنچھی اڑ گئے پرائی اور
نفرتوں کے گاؤں میں جسم جسم گھاؤ ہیں
غزل
گاؤں گاؤں خاموشی سرد سب الاؤ ہیں
سبط علی صبا