گالیاں تنخواہ ٹھہری ہے اگر بٹ جائے گی
عاشقوں کے گھر مٹھائی لب شکر بٹ جائے گی
روبرو گر ہوگا یوسف اور تو آ جائے گا
اس کی جانب سے زلیخا کی نظر بٹ جائے گی
رہزنوں میں ناز و غمزہ کی یہ جنس دین و دل
جوں متاع بردہ آخر ہم دگر بٹ جائے گی
ہوگا کیا گر بول اٹھے غیر باتوں میں مری
پھر طبیعت میری اے بیداد گر بٹ جائے گی
دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ
بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی
کر لے اے دل جان کو بھی رنج و غم میں تو شریک
یہ جو محنت تجھ پہ ہے کچھ کچھ مگر بٹ جائے گی
مونگ چھاتی پہ جو دلتے ہیں کسی کی دیکھنا
جوتیوں میں دال ان کی اے ظفرؔ بٹ جائے گی
غزل
گالیاں تنخواہ ٹھہری ہے اگر بٹ جائے گی
بہادر شاہ ظفر