گاہے گاہے وہ چلے آتے ہیں دیوانے کے پاس
جیسے آتی ہیں بہاریں سج کے ویرانے کے پاس
پارسائی شیخ صاحب کی بھی اب مشکوک ہے
شام کو دیکھا ہے ہم نے ان کو میخانے کے پاس
رنج و غم افسردگی مایوسیاں مجبوریاں
تیرے غم میں کیا نہیں ہے تیرے دیوانے کے پاس
گلستاں کیسے جلا کچھ کہہ نہیں سکتا مگر
برق لہرائی تھی شاید میرے کاشانے کے پاس
میں وہ کافر ہوں نہیں ملتا کہیں جس کا جواب
میں نے مسجد اپنی بنوا لی صنم خانے کے پاس
میں تری محفل میں آیا کچھ نہیں میری خطا
لوگ آ جاتے ہیں اکثر جانے پہچانے کے پاس
ہو گئے جانبازؔ وہ میری وفا کے معترف
تذکرہ کرتے ہیں میرا اپنے بیگانے کے پاس
غزل
گاہے گاہے وہ چلے آتے ہیں دیوانے کے پاس
ستیہ پال جانباز