فغاں سے ضبط جنوں کا نظام ٹوٹ گیا
کہ میرے ہاتھ سے میرا ہی جام ٹوٹ گیا
وہی ہیں طوق و سلاسل وہی نظام چمن
وہ کون ہیں جو یہ کہتے ہیں دام ٹوٹ گیا
ضرور پیر مغاں کا بھی کچھ اشارہ تھا
غلط کہا کہ مقدر سے جام ٹوٹ گیا
بکھر گئے مری خاطر حیات کے گیسو
کبھی جو شب کے ستاروں کا دام ٹوٹ گیا
کیا تھا جس نے حقائق سے ہم کو بیگانہ
وہ ایک نشۂ کیف دوام ٹوٹ گیا
تمہارے قرب کی ساعت میں یوں ہوا محسوس
کہ جیسے سلسلۂ صبح و شام ٹوٹ گیا
اصول راہنما سے جہاں میں اے میکشؔ
ہزار دام بنے ایک دام ٹوٹ گیا

غزل
فغاں سے ضبط جنوں کا نظام ٹوٹ گیا
مسعود میکش مراد آبادی