فغاں سے ترک فغاں تک ہزار تشنہ لبی ہے
سکوت بھی تو اک انداز مدعا طلبی ہے
بہت دنوں میں ہوا اہل آرزو کو میسر
وہ قرب خاص جہاں تیری یاد بے ادبی ہے
خیال ترک تعلق جنون قطع مراسم
تمام سعیٔ طلب ہے تمام تشنہ لبی ہے
سکوت شعلۂ گل ہے کہ تیرا پیکر رنگیں
وہ آنچ آتی ہے جیسے بدن میں آگ دبی ہے
اسی کے فیض سے آشوب آگہی ہے گوارا
نگاہ ناز ہے یا موج بادۂ عنبی ہے
نہ جانے کس طرح طے ہوگا تشنگان کرم سے
وہ مرحلہ کہ جہاں عرض حال بے ادبی ہے
فضا تو نغمۂ گل سے بھی چونک اٹھی ہے لیکن
تری شگفتہ لبی پھر وہی شگفتہ لبی ہے
غزل
فغاں سے ترک فغاں تک ہزار تشنہ لبی ہے
عظیم مرتضی