فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خون ہی خون مجھے رنگ سحر لگتا ہے
علم کی دیو قدی دیکھ کے ڈر لگتا ہے
آسمانوں سے اب انسان کا سر لگتا ہے
مجھ کو لگتا ہے نشیمن کی مرے خیر نہیں
جب کسی شاخ پہ گلشن میں تبر لگتا ہے
مان لو کیسے کہ میں عیب سراپا ہوں فقط
میرے احباب کا یہ حسن نظر لگتا ہے
کل جسے پھونکا تھا یا کہہ کے کہ دشمن کا ہے گھر
سوچتا ہوں تو وہ آج اپنا ہی گھر لگتا ہے
فن ہے وہ روگ جو لگتا نہیں سب کو لیکن
جس کو لگتا ہے اسے زندگی بھر لگتا ہے
احتیاطاً کوئی در پھوڑ لیں دیوار میں اور
شور بڑھتا ہوا کچھ جانب در لگتا ہے
ایک دروازہ ہے ہر سمت نکلنے کے لئے
ہو نہ ہو یہ تو مجھے شیخ کا گھر لگتا ہے
چمن شعر میں ہوں اک شجر زندہ مگر
ابھی ملاؔ مری ڈالی یہ ثمر لگتا ہے
غزل
فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
آنند نرائن ملا