فتنۂ گردش ایام سے جی ڈرتا ہے
سایۂ زلف سیہ فام سے جی ڈرتا ہے
دن کے سینے میں دھڑکتے ہوئے لمحوں کی قسم
شب کی رفتار سبک گام سے جی ڈرتا ہے
وہی تاریک دریچے وہی بے نور شفق
پرتو مہر تہی دام سے جی ڈرتا ہے
وہی بے وجہ اداسی وہی بے نام خلش
رسم راہ دل ناکام سے جی ڈرتا ہے
وہی سنسان فضائیں وہی ویراں سا نگر
آ کے بیٹھو تو در و بام سے جی ڈرتا ہے
غزل
فتنۂ گردش ایام سے جی ڈرتا ہے
جاوید کمال رامپوری