فتنہ آرا شورش امید ہے میرے لیے
نا امیدی راحت جاوید ہے میرے لیے
دیکھتا ہوں ہر کہیں حسن ازل کا انعکاس
ذرہ ذرہ غیرت خورشید ہے میرے لیے
صاف آتا ہے نظر انجام ہر آغاز کا
زندگانی موت کی تمہید ہے میرے لیے
جاگ اٹھتی ہے تہ دامان شب سے صبح نو
موت کیا ہے زیست کی تجدید ہے میرے لیے

غزل
فتنہ آرا شورش امید ہے میرے لیے
تلوک چند محروم