فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے
صبا کے لمس سے پھولوں کا رنگ مہکے ہے
ادائے نیم نگاہی بھی کیا قیامت ہے
کہ بن کے پھول وہ زخم خدنگ مہکے ہے
یہ وحشتیں بھی مری خوشبوؤں کا حصہ ہیں
کہ مرے خون سے دامان سنگ مہکے ہے
ادائے ناز بھی ہے حسن و اہتزاز کی بات
کہ تار زلف نہیں انگ انگ مہکے ہے
لہو کے پھولوں سے آراستہ ہے تیغ ستم
شفق شفق جو یہ مقتل کا رنگ مہکے ہے
چراغ لالہ سے روشن ہوا ہے دشت وفا
ہوائے دل سے یہ نقش فرنگ مہکے ہے
شکر لبوں کے تبسم کی بات کیا تنویرؔ
نفس نفس میں مئے لالہ رنگ مہکے ہے
غزل
فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے
تنویر احمد علوی