EN हिंदी
فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے | شیح شیری
firaq se bhi gae hum visal se bhi gae

غزل

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے

عزیز حامد مدنی

;

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے

جو بت کدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے

اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے

غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے

گل و ثمر کا تو رونا الگ رہا لیکن
یہ غم کہ فرق حرام و حلال سے بھی گئے

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا
کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے

چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا
کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے