فراق میں دم الجھ رہا ہے خیال گیسو میں جانکنی ہے
طناب جلاد کی طرح سے رگ گلو آج کل تنی ہے
نہیں ہے پروائے مال و دولت صفائے باطن سے دل غنی ہے
گدا ہیں حاجت روائے سلطاں یہ کیمیائے فروتنی ہے
جگر میں ہیں داغ مہر و الفت شگاف پہلو ہے جیب مشرق
شب لحد ہے کہ صبح محشر یہ کس قیامت کی روشنی ہے
فضائل اتحاد ملت جہاں میں وجہ مخالفت ہیں
معاف ہی رکھئے شیخ صاحب یہ رہبری ہے کہ رہزنی ہے
غرض نہ رکھے مئے جہاں سے تو ہم بھی قائل ہوں تیرے واعظ
کمال کیا جب امید فردا ہی علت پاک دامنی ہے
ہمیں نہ راس آیا دل لگانا غضب ہوا پھر گیا زمانہ
کوئی تو کہتا ہے قید کر دو کوئی یہ کہتا ہے کشتنی ہے
رقیب کو پاس گر بٹھایا تو مجھ سے ہرگز نہ ضبط ہوگا
مٹا ہی دوں ایک دن یہ جھگڑا بس اب تو دل میں یہی ٹھنی ہے
کوئی کسی سے نہ دل لگائے نہ سر پہ کوہ الم اٹھائے
نہیں بھروسہ خدا بچائے کہ عشق میں جان پر بنی ہے
کھپی ہے دل میں ہنسی تمہاری فراق میں کوندتی ہے بجلی
رہیں نہ کیوں اشک سرخ جاری جگر میں الماس کی کنی ہے
کبھی تو آ میرے رشک عیسیٰ ہوئی ہے مزمن تپ جدائی
نہیں شفا کی امید باقی نمود چہرے سے مردنی ہے
ہوا یہ لاغر اسیر تیرا کہ سب کو ہے نقش پا کا دھوکا
گلے میں جو طوق تھا پہنایا وہ اب اسے حصن آہنی ہے
نہ تیغ قاتل کا کیوں ہو شہرا کیا ہے جو رنگ جسم ایسا
دئے جو ٹانکے تو ہے یہ دھوکا بدن کا ملبوس سوزنی ہے
زمین پر گرتے گرتے ہم کو سنا گیا کاسۂ سفالیں
ہوا جہاں دور عمر آخر یہ ساز ہستی شکستنی ہے
جگر میں برسوں کھٹک رہے گی پھنکے گے پہلو چمک رہے گی
خیال مژگان یار جانی سنان دل دوز کی انی ہے
ازل سے رندوں کو مے کی عادت ہے اور واعظ کی سرزنش کی
تخالف وضع سے ہے جھگڑا نہ دوستی ہے نہ دشمنی ہے
حبیبؔ پیری میں ہیں رنگیلی وہ سبزہ رنگوں ہی پر ہیں مرتے
ہوئے ہیں دو دن پتہ نہیں ہے کسی سے گہری کہیں چھنی ہے
غزل
فراق میں دم الجھ رہا ہے خیال گیسو میں جانکنی ہے
حبیب موسوی