فراق موسم کے آسماں میں اجاڑ تارے جڑے ہوئے ہیں
ندی کے دامن میں ہنسراجوں کے سرد لاشے گرے ہوئے ہیں
چمکتے موسم کا رنگ پھیلا تھا جس سے آنکھیں دھنک ہوئی تھیں
اور اب بصارت کی نرم مٹی میں تھور کانٹے اگے ہوئے ہیں
ترے دریچے کے خواب دیکھے تھے رقص کرتے ہوئے دنوں میں
یہ دن تو دیکھو جو آج نکلا ہے دست و پا سب کٹے ہوئے ہیں
خمار کیسا تھا ہمرہی کا شمار گھڑیوں کا بھول بیٹھے
ترے نگر کے فقیر اب تک اس ایک شب میں رکے ہوئے ہیں
اسے عداوت تھی اس صبا سے جو میرے چہرے کو چھو گزرتی
وہ اب نہیں ہے تو اپنے آنگن میں لو کے ڈیرے لگے ہوئے ہیں
رہو گے تھامے یوں ہی یہ چوکھٹ اگرچہ اک بھی نظر نہ ڈالوں
ہنساؤ مت گھر کو لوٹ جاؤ یہ راگ میرے سنے ہوئے ہیں
کہاں رکے تھے وہ کیا شجر تھے کہ جن کے سائے میں ہم کھڑے تھے
وہ دھوپ کیسی تھی جس کی بارش سے میرے صحرا ہرے ہوئے ہیں
غزل
فراق موسم کے آسماں میں اجاڑ تارے جڑے ہوئے ہیں
سیماب ظفر