فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے
بقول اس آنکھ کے دنیا بدل تو سکتی ہے
ترے خیال کو کچھ چپ سی لگ گئی ورنہ
کہانیوں سے شب غم بہل تو سکتی ہے
عروس دہر چلے کھا کے ٹھوکریں لیکن
قدم قدم پہ جوانی ابل تو سکتی ہے
پلٹ پڑے نہ کہیں اس نگاہ کا جادو
کہ ڈوب کر یہ چھری کچھ اچھل تو سکتی ہے
بجھے ہوئے نہیں اتنے بجھے ہوئے دل بھی
فسردگی میں طبیعت مچل تو سکتی ہے
اگر تو چاہے تو غم والے شادماں ہو جائیں
نگاہ یار یہ حسرت نکل تو سکتی ہے
اب اتنی بند نہیں غم کدوں کی بھی راہیں
ہوائے کوچۂ محبوب چل تو سکتی ہے
کڑے ہیں کوس بہت منزل محبت کے
ملے نہ چھاؤں مگر دھوپ ڈھل تو سکتی ہے
حیات لو تہ دامان مرگ دے اٹھی
ہوا کی راہ میں یہ شمع جل تو سکتی ہے
کچھ اور مصلحت جذب عشق ہے ورنہ
کسی سے چھٹ کے طبیعت سنبھل تو سکتی ہے
ازل سے سوئی ہے تقدیر عشق موت کی نیند
اگر جگائیے کروٹ بدل تو سکتی ہے
غم زمانہ و سوز نہاں کی آنچ تو دے
اگر نہ ٹوٹے یہ زنجیر گل تو سکتی ہے
شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانیٔ حسن
نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے
کبھی وہ مل نہ سکے گی میں یہ نہیں کہتا
وہ آنکھ آنکھ میں پڑ کر بدل تو سکتی ہے
بدلتا جائے غم روزگار کا مرکز
یہ چال گردش ایام چل تو سکتی ہے
وہ بے نیاز سہی دل متاع ہیچ سہی
مگر کسی کی جوانی مچل تو سکتی ہے
تری نگاہ سہارا نہ دے تو بات ہے اور
کہ گرتے گرتے بھی دنیا سنبھل تو سکتی ہے
یہ زور و شور سلامت تری جوانی بھی
بقول عشق کے سانچے میں ڈھل تو سکتی ہے
سنا ہے برف کے ٹکڑے ہیں دل حسینوں کے
کچھ آنچ پا کے یہ چاندی پگھل تو سکتی ہے
ہنسی ہنسی میں لہو تھوکتے ہیں دل والے
یہ سر زمین مگر لعل اگل تو سکتی ہے
جو تو نے ترک محبت کو اہل دل سے کہا
ہزار نرم ہو یہ بات کھل تو سکتی ہے
ارے وہ موت ہو یا زندگی محبت پر
نہ کچھ سہی کف افسوس مل تو سکتی ہے
ہیں جس کے بل پہ کھڑے سرکشوں کو وہ دھرتی
اگر کچل نہیں سکتی نگل تو سکتی ہے
ہوئی ہے گرم لہو پی کے عشق کی تلوار
یوں ہی جلائے جا یہ شاخ پھل تو سکتی ہے
گزر رہی ہے دبے پاؤں عشق کی دیوی
سبک روی سے جہاں کو مسل تو سکتی ہے
حیات سے نگہہ واپسیں ہے کچھ مانوس
مرے خیال سے آنکھوں میں پل تو سکتی ہے
نہ بھولنا یہ ہے تاخیر حسن کی تاخیر
فراقؔ آئی ہوئی موت ٹل تو سکتی ہے
غزل
فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے
فراق گورکھپوری