EN हिंदी
فکر میں ہیں ہمیں بجھانے کی | شیح شیری
fikr mein hain hamein bujhane ki

غزل

فکر میں ہیں ہمیں بجھانے کی

اظہر عنایتی

;

فکر میں ہیں ہمیں بجھانے کی
آندھیاں میرؔ کے زمانے کی

میرا گھر ہے پرانے وقتوں کا
اس کی آنکھیں نئے زمانے کی

اب کوئی بات بھولتا ہی نہیں
ہائے وہ عمر بھول جانے کی

اپنے اندر کا شور کم تو ہوا
خامشی میں کتاب خانے کی

ایک منظر تھا یاد رکھنے کا
ایک تصویر تھی بنانے کی