فکر میں ڈوبے تھے سب اور با ہنر کوئی نہ تھا
زندگی کی شاخ پر پختہ ثمر کوئی نہ تھا
گا رہے تھے اپنی اپنی دھن میں سب غزلیں مگر
میرؔ و غالبؔ داغؔ و حسرتؔ یا جگرؔ کوئی نہ تھا
رات بھر ظلمت میں لپٹی بستیاں کہتی رہیں
چاند تارے کہکشاں جگنو قمر کوئی نہ تھا
دیکھنے میں یوں بظاہر سب ہمارے ساتھ تھے
جب سروں پر دھوپ آئی ہم سفر کوئی نہ تھا
خون کے رشتوں کی گرمی سرد تھی چاروں طرف
سب تسلی دے رہے تھے چارہ گر کوئی نہ تھا
رند و زاہد شیخ و صوفی سب کے سب تشنہ ہی تھے
کس کو دیتے مے کدہ جب معتبر کوئی نہ تھا
پھر یہ سوچا لکھ ہی بھیجوں حال دل اس کو مگر
اڑ چکے تھے سب کبوتر نامہ بر کوئی نہ تھا
زندگی بھر بھیگتی پلکیں تھیں اس کی منتظر
ہم سے بڑھ کر خود سے ذاکرؔ بے خبر کوئی نہ تھا
غزل
فکر میں ڈوبے تھے سب اور با ہنر کوئی نہ تھا
ذاکر خان ذاکر