فکر کیوں ہے قیام کرنے کی
کوئی منزل نہیں ٹھہرنے کی
دام تک لے گئی مجھے پرواز
دشمنی میرے بال و پر نے کی
اس ستم گر کے جور پیہم سے
کس کو فرصت ہے آہ بھرنے کی
جانے کیوں حادثے نہیں ہوتے
جب سے ٹھانی ہے دل میں مرنے کی
وہ بھی اب رو رہے ہیں سوچ کے کچھ
تھی خوشی جن کو میرے مرنے کی
حسن کی ہر ادا کی زد پہ رہے
کتنی جرأت دل و جگر نے کی
دیکھ کر مجھ کو رخ بدل جاتا
ایک صورت ہے پیار کرنے کی
کس توقع پہ اشکؔ ہم جیتے
گر نہ ہوتی امید مرنے کی

غزل
فکر کیوں ہے قیام کرنے کی
سید محمد ظفر اشک سنبھلی