فکر کے سارے دھاگے ٹوٹے ذہن بھی اب معذور ہوا
اب کے بہار یہ کیسی آئی کیسا یہ دستور ہوا
کل پرزوں کا روح رواں یہ اور وہ سرمائے کی جونک
لیکن اس کی نظروں میں یہ دھرتی کا ناسور ہوا
دن کی سفیدی تیری نظر میں رات کی کالی چادر ہے
رات کا خونی اندھیارا بھی تیری نظر میں نور ہوا
جب سے دیکھا ہے کھیتوں میں میں نے ظالم دھوپ کا روپ
تب سے تیری زلف کا سایہ دور بہت ہی دور ہوا
ظلم کو اس نے ظلم کہا ہے جبر کو اس نے جبر کہا
یعنی ضیاؔ اب ضیاؔ نہیں ہے وقت کا وہ منصور ہوا
غزل
فکر کے سارے دھاگے ٹوٹے ذہن بھی اب معذور ہوا
احمد ضیا