EN हिंदी
فکر کے سارے دھاگے ٹوٹے ذہن بھی اب معذور ہوا | شیح شیری
fikr ke sare dhage TuTe zehn bhi ab mazur hua

غزل

فکر کے سارے دھاگے ٹوٹے ذہن بھی اب معذور ہوا

احمد ضیا

;

فکر کے سارے دھاگے ٹوٹے ذہن بھی اب معذور ہوا
اب کے بہار یہ کیسی آئی کیسا یہ دستور ہوا

کل پرزوں کا روح رواں یہ اور وہ سرمائے کی جونک
لیکن اس کی نظروں میں یہ دھرتی کا ناسور ہوا

دن کی سفیدی تیری نظر میں رات کی کالی چادر ہے
رات کا خونی اندھیارا بھی تیری نظر میں نور ہوا

جب سے دیکھا ہے کھیتوں میں میں نے ظالم دھوپ کا روپ
تب سے تیری زلف کا سایہ دور بہت ہی دور ہوا

ظلم کو اس نے ظلم کہا ہے جبر کو اس نے جبر کہا
یعنی ضیاؔ اب ضیاؔ نہیں ہے وقت کا وہ منصور ہوا