فکر کم بیان کم
رہ گئی زبان کم
دھوپ میں ڈھلان کم
روشنی میں جان کم
بارشوں کی انتہا
چھت پہ آسمان کم
زلزلوں نے کر دیئے
شہر کے مکان کم
خامشی ہی خامشی
مرغ کی اذان کم
دھوپ شعلہ بار ہے
چھاؤں کا گمان کم
جسم میں تناؤ ہے
ہڈیوں میں جان کم
رندؔ اب سکوں کہاں
ہے عذاب جان کم
غزل
فکر کم بیان کم
پی.پی سری واستو رند