EN हिंदी
فکر زر میں بلکتا ہوا آدمی | شیح شیری
fikr-e-zar mein bilakta hua aadmi

غزل

فکر زر میں بلکتا ہوا آدمی

ساحر شیوی

;

فکر زر میں بلکتا ہوا آدمی
اب کہاں رہ گیا کام کا آدمی

زندگی بھی حقیقت میں اک جرم ہے
عمر بھر کاٹتا ہے سزا آدمی

کون اپنائے ماضی کی پرچھائیاں
کون پیدا کرے اب نیا آدمی

خوبصورت سی اس پر کہانی لکھو
گاؤں کی گوریاں شہر کا آدمی

تھے بہت لوگ محفل میں بیٹھے ہوئے
ان میں مشکل سے اک مل گیا آدمی

یہ کمال خودی ہی کہا جائے گا
خود ہی دنیا بنانے لگا آدمی

تم بھی ساحرؔ ذرا اس سے بچ کر رہو
گاؤں سے ہے الگ شہر کا آدمی