EN हिंदी
فکر منزل ہے نہ نام رہنما لیتے ہیں ہم | شیح شیری
fikr-e-manzil hai na nam-e-rahnuma lete hain hum

غزل

فکر منزل ہے نہ نام رہنما لیتے ہیں ہم

حسن عظیم آبادی

;

فکر منزل ہے نہ نام رہنما لیتے ہیں ہم
اپنا ذوق رہروی خود آزما لیتے ہیں ہم

کثرت غم میں بھی اکثر مسکرا لیتے ہیں ہم
ظلمت ہستی میں یوں شمعیں جلا لیتے ہیں ہم

کچھ نہ پوچھو ہمتوں سے کام کیا لیتے ہیں ہم
غم کو بادہ دل کو پیمانہ بنا لیتے ہیں ہم

منتشر ہونے کو آتی ہے جو بزم آرزو
حوصلوں کی پھر نئی محفل سجا لیتے ہیں ہم

قافلہ آ کر سر منزل بھی ہو جاتا ہے گم
راہزن کو جب کبھی رہبر بنا لیتے ہیں ہم

ظلم دوراں کو عطا کرنا ہے تازہ حوصلہ
تیر جو آتا ہے سینے سے لگا لیتے ہیں ہم

کیوں مزاج حسن میں پیدا کریں اک برہمی
اپنے دل کو اپنا افسانہ سنا لیتے ہیں ہم

اس قدر چرکے لگے ہیں دہر میں اے ہم نشیں
خار کیا پھولوں سے بھی دامن بچا لیتے ہیں ہم

ملتفت ہوتا نہیں جب ساقیٔ دوراں حسنؔ
میکدے میں بڑھ کے خود ساغر اٹھا لیتے ہیں ہم